ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل کا عمل جاری ہے، وفاق اور چاروں صوبوں کے نومنتخب ارکان اسمبلی کے حلف کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے۔
قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے 29 فروری کو حلف اٹھایا، اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے ارکان عمران خان کی مشابہت والے ماسک پہن کر اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نجی نیوز ویب سائیٹ کی اصل خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ حقائق مسخ کرتے ہوئے اسے اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ دراصل ہمارے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین وائرل خبروں، ویڈیوز کو لے کر زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیک نیوز کا بازار گرم رہتا ہے اور سچ کہیں منہ چھپائے بیٹھا ہوتا ہے۔
گزشتہ روز جب پاکستان کی قومی اسمبلی کے نومنتخب اراکین نے اپنا حلف اٹھایا تو اس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف کی پوسٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان اور شیر افضل مروت سمیت کئی اراکین اسمبلی سیشن میں چہرے پر عمران خان کی شباہت والے ماسک پہن کر آئے ہیں۔ سوشل میڈیا صارف نے علی محمد خان اور شیر افضل مروت کی ماسک پہنے تصویر بھی شیئر کی۔
جبکہ ایسا ہی ماسک نواز شریف پر بھی اسمبلی سیشن کے دوران پھینکا گیا جو سابق وزیر اعظم اور صدر ن لیگ شہباز شریف کے کندھے پر لگا جسے امیر مقام نے اٹھا لیا۔
کچھ ہی دیر کے بعد سوشل میڈیا پر یہ شور سنائی دیا جو لمحوں میں وائرل ہوا کہ اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی مشابہت والے ماسک اسی فریم سے بنائے گئے ہیں جو فرعون مصر استعمال کرتے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر تمام اہم سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہو گئی اور طرح طرح کے تبصرے سامنے آنے لگے۔ اصل خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جبکہ خبر دینے والے صحافی نے مکمل حقائق کے ساتھ اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ شاید اس کی وجہ آن لائن شاپنگ ایپ دراز ہے جہاں یہ ماسک بکنے کے لیے آئے اور آتے ہی شارٹ ہو گئے۔ دراصل یہ ماسک مقامی فیکٹری میں پلاسٹک سے بنایا گیا ہے جو آن لائن دستیاب ہے جبکہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں بھی کئی دکانوں پر یہ فروخت ہو رہا ہے۔
اس ماسک کے خدوخال کچھ ایسے انداز میں بنائے گئے ہیں کہ اسے پہننے والا دور سے عمران خان کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ چہرے کی جھریوں سے لے کر آنکھوں کے ابھار اور حلقوں تک ہر پہلو کو فنکاری سے تراشا گیا ہے۔ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں دو طرح کے ماسک دستیاب ہیں۔ آن لائن شاپنگ اسٹور دراز پر ’عمران خان ماسک‘ آتے ہی فروخت ہو گئے تھے اور اب دراز پر یہ مخصوص ماسک ’آؤٹ آف اسٹاک‘ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب متعدد فیکٹری مالکان اور دکاندار یہ ماسک بنانا اور بیچنا چاہتے ہیں۔
آن لائن اسٹورز پر اس ماسک کی قیمت مختلف بتائی گئی۔ دراز پر اس کی قیمت پہلے 400 کے قریب تھی تاہم مانگ میں اضافے کے پیش نظر بعد میں اسے بڑھا کر 500 کر دیا گیا۔ جب مانگ میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی قیمت 1800 تک بڑھا دی گئی۔ اس وقت یہ ماسک دراز پر دستیاب نہیں ہے جبکہ شاہ عالم مارکیٹ میں کل تک اس کی قیمت 500 تک بتائی گئی۔
دراصل پی ٹی آئی اور عمران خان کے چاہنے والے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر عمران خان سے جڑے رہیں۔ اس سیاسی لگاؤ کا اظہار پی ٹی آئی سپورٹرز مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں جن میں ایک طریقہ ’عمران خان ماسک‘ بھی ہے۔ بھارتی فلم “گھبر” کے ایک سین سے مشابہ یہ رویہ بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہے اور اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کے چاہنے والے اس تکنیک پر بڑی تعداد میں عمل کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اراکین اور فالورز کے اس جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے ایک روایتی کارڈ استعمال کیا گیا اور اس ماسک کو فرعون مصر کے ماڈل سے جوڑ دیا گیا اور ساتھ ہی مذہبی بنیادوں پر تنقید شروع ہو گئی۔ سوشل میڈیا ایپ فیس بُک پر ایک صارف نے لکھا کہ ویسے تو ایسی حرکتیں کرنی نہیں چاہییں کہ منہ چھپانا پڑے لیکن ایک بات بتا دوں ان سب چیزوں کا ریاست مدینہ اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اتنا ہی نہیں، کسی مسلمان کو پہنے نہیں دیکھا ہوگا۔
ماسک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر اس ماسک کی تاریخ کی بات کریں تو قدیم تاریخ ہے اور اس ماسک کو سب سے پہلے فرعون کے دور میں استعمال کرنے کے شواہد ملتے ہیں اور پھر مزید تفصیلات دیکھنی ہوں تو فرعون سے متعلق ایک ماسک کی شکل میں گولڈن ماسک بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
دوسری جانب یروشلم کا صلیبی بادشاہ جسمانی کوڑھ کا مریض تھا جو اس طرح کا ماسک پہنتا تھا اس کا ثبوت آپ کو صلاح الدین ایوبی پر بنی فلم (Kingdom of Heaven) میں بھی مل جائے گا۔ اس تاریخ میں مسلمان اور اسلام کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اب پوچھیں زرا علی محمد خان اور زرتاج گل سے کہ آپ نے کیوں پہنا ہے؟
جبکہ نجی ویب سائٹ پر یہ بات کلیئر کر دی گئی ہے کہ یہ ماسک مقامی سطح پر ایک فیکٹری میں تیار کیا گیا۔ جبکہ اس کی تیاری میں بچوں کے کھلونے بنانے میں استعمال ہونے والا روایتی پلاسٹک شامل ہے۔