spot_img

فیکٹ چیک: تفریح کرتی ’سرکاری اسکول کی پرنسپل دریائے کنہار‘ کی بےرحم موجوں کا شکار؟

پاکستانی ٹائم لائنز پر ایک درمیانی عمر کی خاتون کے مبینہ طور پر آخری لمحات کی ویڈیو شیئر کرنے والے افراد افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔

ویڈیو کے ساتھ دی گئی متضاد معلومات میں حادثے کی تفصیلات شیئر کرنے والوں کا دعوی ہے کہ خاتون کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، ایسا کرنے والے خاتون کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے پشاور میں نماز جنازہ کی اطلاع بھی دے رہے ہیں۔

انہی ٹائم لائنز پر کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ ’شاہین صاحبہ‘ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور وہ کالج میں لیکچرر ہیں۔

ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان نسیم نے چند سیکنڈز کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دوسروں سے اپیل کی کہ ’خدارا اس خونی دریا سے دور رہیں۔‘

احسان نسیم نے مزید لکھا کہ ’مانسہرہ کے علاقے ناران میں اکوڑہ خٹک کے سرکاری اسکول کی پرنسپل خاتون ویڈیو بناتے ہوئے دریائے کنہار کی بےرحم موجودں کی نذر ہو گئیں۔‘

 

ظہیر خان ہادی نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ دعوی بھی کیا کہ خاتون 14 اگست کی تعطیلات منانے کے لیے فیملی کے ساتھ اس علاقے میں آئی ہوئی تھیں۔

عبدالسلام راکٹی نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مس شاہین آج (14 اگست) سیلفی بناتے ہوئے دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئیں۔ نماز جنازہ کل 10 بجے زریاب کالونی پشاور میں ادا کی جائے گی۔‘

 

نازیہ گورایہ نے حادثے کا شکار ہونے والی خاتون کا تعلق جنوبی پنجاب سے بتایا تو دعوی کیا کہ ویڈیو رشتہ دار نے لیک کی ہے۔


ویڈیوز پر تبصرہ کرنے والے متعدد افراد نے جاننا چاہا کہ افسوسناک واقعہ کب کا ہے، خاتون کو بچایا جا سکا یا نہیں تاہم کسی مصدقہ ذریعے سے اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں بہتے دریائے کنہار پر تفریح کے لیے آنے اور حادثاتی طور پر یا دوسروں کو بچاتے ہوئے مصیبت کا شکار ہونے کے واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں۔

ماضی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے استاذ اور سابق رکن سندھ اسمبلی نصراللہ شجیع بھی ایک طالب علم کو بچانے کی کوشش میں اسی دریا میں ڈوب کر شہید ہو چکے ہیں۔


سوشل میڈیا صارفین نے نشاندہی کی کہ سیاحت کے لیے آئے ہوئے افراد ایڈونچر یا تفریح کی وجہ سے خود کو کم علمی میں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

وی نیوز نے معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے کاغان پولیس سے رابطہ کیا کہ تو انہوں نے ایسے کسی واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

کاغان پولیس اسٹیشن کے محرر یاسر نے دعوی کیا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے اور دریائے سوات کی ہے۔

پولیس کے مطابق ان کے علاقے میں اس طرح کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

Author

تازہ ترین