spot_img

فیکٹ چیک : این اے 47 کی انتخابی مہم میں بڑی سیاسی جماعت پر ہم جنس پرستی کے الزامات کتنے درست؟

انتخابی مہم  کے دوران سیاسی جماعتوں  کے نمائندوں کی  طرف سے ووٹرز پر اثرانداز ہونے والے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے  ۔ چند روز قبل    جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 47 سے امیدوار کاشف چوہدری کے فیس بک اکاونٹ سے شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو پیغام  میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے حوالے سے چند  دعوے کیے ہیں ۔ فیکٹ پلس نے ان دعوؤں کی حقیقت کے بارے میں تحقیق کی  ہے  جس کی تفصیل  اور تنائج کچھ یہ ہیں :

دعوی 1 : کہ نوں لیگ اور  نواز شریف نے ہم جنس پرستی کے دروازے کھولنے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ، 2018میں پاس کیا تھا۔

پہلے دعوی کی تحقیق:

اس دعوے کی تحقیق کے لئے ہم نے ٹرانسجنڈر بل کا   بغور مطالعہ کیا اور اس دعوے کی تصدیق کے لیے  ماہرین  سے بات کی۔ سید مقداد محدی ایڈوکیٹ انسانی حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جب ہم نے ان سے اس ایکٹ کے حوالے سے رائے لی تو ان کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ  کا مقصد ٹرانسجنڈرز کے حقوق کا تحفظ ہے۔ جو آئین پاکستان اور عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی شہری کا حق ہوتے ہیں۔ اس میں تعلیم صحت اور پبلک مقامات پر ہراساں نہ کئے جانے سے متعلق شقیں موجود ہیں۔

جس شق پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں وہ  خواجہ سرا کی اپنی شناخت کے رجسٹریشن کے حوالے سے ہے۔ وہ اپنی شناخت کو باقی مردو خواتین کی طرح بنا میڈیکل کے درج کروا سکتے ہیں۔ اس سے کسی بھی طور پر ہم جنس پرستی کا عنصر سامنے نہیں آتا۔ نا ہی پاکستان میں کوئی اور قانون ہم جنس پرستی  کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔

محمد عدیل اسماعیل جو ماہر قانون ہیں انکا بھی کہنا تھا کہ اس ایکٹ کا ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دینے سے کوئی تعلق نہیں۔ نا ہی اس بل کے آنے سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق جس میں شناخت سب سے اہم ہے  سے متعلقہ ہے۔

پہلے دعوی کا نتیجہ: یہ دعوی غلط اور گمرہ کن ہے۔

ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟

اس ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔ نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ اور دیگر سرکاری دستاویزات وغیرہ پر درج کی جائے گی۔ ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انہیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ نیز اسی ایکٹ میں  خواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

دعوی 2: ہم جنس پرست فلم پر کورٹ کی جانب سے پابندی لگنے کے بعد شہباز شریف نے راتوں رات نوٹس لے کر فلم کو سینماؤں پر  لگوایا تھا۔

تحقیق : اس دعوی کی تصدیق کے لئے جب ہم نے سرچ انجن گوگل کی مدد سے اس فلم کے متعلق سرچ کیا تو 23 نومبر 2022 کو ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر ملی جس کا عنوان ’’ ’جوائے لینڈ‘ ملک کے محدود سینماؤں میں ریلیز ‘‘ ہے۔ اس خبر کے متن میں ہے کہ ’جوائے لینڈ‘ پر ابتدائی طور پر حکومت پاکستان نے نمائش سے چند دن قبل 12 نومبر کو پابندی عائد کردی تھی، تاہم بعد ازاں وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد اسے نمائش کی اجازت دی گئی تھی۔

مزید تحقیق کرنے سے 15 نومبر 2022 ڈان نیوز کی ہی ویب سائٹ پر شائع معلوم ہوا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس فلم کے خلاف شکایات کی تحقیقات کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں وزیر اطلاعات، وزیر برائے کمیونیکیشن، وزیر سرمایہ کاری، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور گلگت بلتستان سمیت چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بھی شامل تھے۔

دوسرے دعوے کا نتیجہ: یہ جزوی طور پر درست ہے۔

دعوی 3: ن لیگ کے انتخابات 2024 کے منشور میں ہم جنس پرستی کا فروغ شامل ہے۔

تحقیق: اس دعوی کے مطابق  ن لیگ کے انتخابات 2024 کے منشور میں ہم جنس پرستی کا فروغ شامل ہے۔اسکی تحقیق کے لئے ہم نے اسی ویڈیو میں موجود مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور کی تصاویر اور ویب سائٹ پر موجود انتخابی منشور کا بغور مطالعہ کیا۔ اس میں خواجہ سرا کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ جن میں انہیں تعلیم، صحت ، سماجی تحفظ وغیرہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہیں بھی ہم جنس پرستی کے متعلق کسی طرح کا ذکر  نہیں ملا اور  نہ ہی اس میں اسے قانونی تحفظ دینے کا کوئی وعدہ موجود ہے۔

تیسرے دعوی کا نتجہ: یہ دعوی غلط اور گمرہ کن ہے۔

ویڈیو کا لنگ: https://www.facebook.com/kashifchaudharyna47/videos/389600743669243/

 

رپورٹ: کامران ساقی

Author

تازہ ترین