بھارتی میڈیا پر ایک خبر زیرگردش ہے جس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے بھارت اور بنگلہ دیش کے شہریوں کے لیے ایک نئی اسکیم متعارف کروائی ہے جس کے تحت وہ ایک لاکھ درہم کے عوض تاحیات گولڈن ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔
بھارت کے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس خبر کو شیئر کیا جارہا ہے، اور صارفین مختلف تبصرے بھی کررہے ہیں۔
🚨Indians can now get UAE’s Golden Visa without trade license, property purchase. pic.twitter.com/ue96mYVppd
— Indian Infra Report (@Indianinfoguide) July 7, 2025
’فیکٹ پلس‘ نے اس حوالے سے تحقیق کی اور حقائق جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ فیک نیوز ہے، یو اے ای نے ایسی کوئی اسکیم متعارف نہیں کرائی۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے بھی واضح طور پر ان خبروں کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دے کر مسترد کردیا ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بعض مخصوص قومیتوں کو ایک لاکھ درہم فیس کے عوض تاحیات (عمر بھر کے لیے) گولڈن ویزا جاری کیا جا رہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’وام‘ کے مطابق آئی سی پی (یعنی شناخت، شہریت، کسٹمز اور پورٹ سیکیورٹی کی وفاقی اتھارٹی) نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسا کوئی اقدام نہ تو زیر غور ہے اور نہ ہی کسی سطح پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بھارتی میڈیا، بشمول پریس ٹرسٹ آف انڈیا، دی ہندو اور ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے شہری ایک نئی اسکیم کے تحت ایک لاکھ درہم کے عوض تاحیات گولڈن ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم یو اے ای کی حکومت نے ان رپورٹس کو غیر مصدقہ اور قانونی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ گولڈن ویزا درحقیقت صرف مخصوص زمروں کے افراد کو جاری کیا جاتا ہے جن میں سرمایہ کار، کاروباری افراد، سائنسدان، ممتاز طلبہ اور انسانیت کے لیے خدمات انجام دینے والے افراد شامل ہیں۔
آئی سی پی کا کہنا ہے کہ تمام ویزا درخواستیں صرف اور صرف سرکاری چینلز کے ذریعے ہی دی جا سکتی ہیں، اور کسی بھی غیر مجاز ادارے یا ویب سائٹ کے ذریعے گولڈن ویزا کے حصول کا دعویٰ جعلی اور فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔
اتھارٹی نے خبردار کیا ہے کہ لوگ کسی بھی ایسے مشاورتی دفتر یا ویب سائٹ سے دور رہیں جو جھوٹے دعوے کرکے پیسے یا ذاتی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے تمام افراد یا اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
درخواست گزاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ صرف یو اے ای کے مصدقہ سرکاری ذرائع پر بھروسہ کریں اور کسی بھی غیر مصدقہ ادارے کو فیس یا نجی معلومات فراہم نہ کریں۔