عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ صحافی اور یوٹیوبرز زیرحراست ملزمان کا انٹرویو کررہے ہوتے ہیں، جس پر عوام کی جانب سے سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آخر یہ کس قانون کے تحت ہورہا ہے۔
پنجاب پولیس نے عوامی مقامات، خاص طور پر پولیس اسٹیشنز اور دفاتر میں ویڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کردی ہیں۔
اس حوالے سے ایک خط کے جواب میں آئی جی پنجاب آفس نے ویڈیو ریکارڈنگ کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا، تاہم بعض حدود و قیود نافذ کی ہیں تاکہ نظم و ضبط اور پولیس آپریشنز کی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔
پولیس حکام کے مطابق ایسی کوئی بھی ویڈیو ریکارڈنگ جو کسی ملزم یا پولیس افسر کی سیکیورٹی کو متاثر کر سکتی ہو یا سرکاری کارروائیوں میں خلل ڈال سکتی ہو، وہ قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں ’آئی جی پی اسپیشل انیشی ایٹو پولیس اسٹیشنز‘ کے لیے ایک اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
خط میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ پر عائد پابندیاں قانونی اصولوں پر مبنی ہیں جو عوامی نظم و ضبط اور انفرادی پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔ خاص طور پر، ایسے افراد کی ریکارڈنگ ممنوع ہوگی جو حساس معاملات میں ملوث ہوں یا جن کی تفتیش جاری ہو تاکہ ان کی پرائیویسی محفوظ رہے اور کسی بھی قسم کی غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
مزید برآں لاہور ہائی کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پولیس نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت کسی بھی زیرِ حراست ملزم کا انٹرویو لینے پر میڈیا پرسنز یا اینکرز کو پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اقدام PECA Act 2016 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ملزمان کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور قانونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات عوامی تحفظ اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ شہریوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پولیس اسٹیشنز میں غیر ضروری ویڈیو ریکارڈنگ سے گریز کریں تاکہ کسی بھی قانونی کارروائی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔