سوشل میڈیا پر کچھ صحافیوں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان سے گزشتہ 2 برس میں 11 ارب ڈالر دبئی منتقل ہوئے۔ فیکٹ پلس نے اس دعویٰ کو فیکٹ چیک کیا تو پتا چلا کہ یہ فیک نیوز ہے۔
منگل کو عالمی سطح کے ایک تفتیشی صحافت کے پراجیکٹ ’دبئی ان لاکڈ‘ میں انکشاف ہوا تھا کہ دنیا بھرکی اشرافیہ کی دبئی میں املاک موجود ہیں۔ اس فہرست میں پاکستانیوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے اور ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 11 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
دنیا بھر کے صحافیوں پر مشتمل گروپ نے اس ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ لیا جو 2020 سے 2022 تک کا ہے۔
اس حوالے سے صحافی صابر شاکر نے ٹوئٹ کی کہ صرف24 مہینوں میں 12 ارب ڈالر صرف دبئی منتقل ہوئے، یعنی ماہانہ 50 کروڑ ڈالر، روپے میں یہ رقم 3 ہزار 300 ارب بنتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہر ماہ 137 ارب روپے باہر گئے۔ یہ کس چینل سے باہر گئے۔
پراپرٹی لیکس
صرف 24 مہینوں میں 12 ارب ڈالر صرف دوبئی میں گیا ، یعنی ماہانہ 50 کروڑ ڈالر ، روپے میں یہ رقم 3 ہزار 300ارب روپے بنتی ہے، مطلب ہے کہ ہر ماہ 137 ارب روپے باہر گیا، یہ کس چینل سے باہر گیا ؟
— Sabir Shakir (@ARYSabirShakir) May 14, 2024
تاہم پراجیکٹ پر کام کرنے والے دونوں صحافیوں عمر چیمہ اور فخر درانی نے اس دعوے کی نفی کی اور صابر شاکر سے سوال کیا کہ ان کے پاس یہ ڈیٹا کہاں سے آیا ہے۔
دی نیوز کے ساتھ منسلک اور ڈیٹا لیکس آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن پر کام کرنے والے سینیئر صحافی عمر چیمہ نے فیکٹ پلس کو بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ دبئی ان لاکڈ میں بتائی جانے والی جائیدادیں گزشتہ 2 سال میں خریدی گئیں اور 11 ارب ڈالر کی رقم 2 سال میں ملک سے باہر گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ دبئی ان لاکڈ میں استعمال ہونے والا ڈیٹا تھا ہی 2022 تک کا، اور اس کے بعد کی خریدوفرخت لیک ڈیٹا میں نہیں ہے۔
’یہ بالکل جھوٹ ہے کہ گزشتہ 2 سال میں ملک سے 11 ارب ڈالر دبئی گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات کرنے والے افراد کس بنیاد پر یہ بات کررہے ہیں‘۔